دورجدید کی بیمارقومیں

مشرق ہو یامغرب‘ مسلمان ہو یاغیرمسلم‘ بلا استثنا سب ایک ہی مصیبت میں گرفتارہیں‘ اور وہ یہ ہے کہ ان پر ایک ایسی تہذیب مسلط ہوگئی ہے جس نے سراسرمادیت کے آغوش میں پرورش پائی ہے۔ اس کی حکمت نظری وحکمت عملی‘دونوں کی عمارت غلط بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے۔ اس کا فلسفہ ‘ اس کاسائنس‘ اس کا اخلاق‘ اس کی معاشرت‘ اس کی سیاست‘ اس کاقانون ‘غرض اس کی ہرچیز ایک غلط نقطہ آغازسے چل کر ایک غلط رخ پر ترقی کرتی چلی گئی ہے اور اب اس مرلہ پر پہنچ گئی ہے۔ جہاں سے ہلاکت کی آخری منزل قریب نظرآرہی ہے۔

اس تہذیب کا آغاز ایسے لوگوں میں ہوا جن کے پاس درحقیقت حکمت الٰہی کا کوئی صاف اورپاکیزہ سرچشمہ نہ تھا۔ مذہب کے پیشوا وہاں ضرور موجود تھے‘ مگر ان کے پاس حکمت نہ تھی‘ ان کے پاس علم نہ تھا‘ ان کے پاس خدا کا قانون نہ تھا۔ محض ایک غلط مذہبی تخیل تھا جو فکرو عمل کی راہوں میں نوع انسانی کو سیدھے راستے پر اگرچلاناچاہتا بھی تو نہ چلاسکتاتھا۔ وہ بس اتنا ہی کرسکتاتھا کہ علم وحکمت کی ترقی میں سدراہ بن جاتا۔چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور اس مزاحمت کا نتیجہ یہ ہواکہ جولوگ ترقی کرنا چاہتے تھے وہ مذہب اور مذہبیت کو ٹھوکرمارکرایک دوسرے راستے پر چل پڑے جس میں مشاہدہ‘ تجربہ اور قیاس واستقراءکے سوا کوئی اور چیز ان کی رہنما نہ تھی۔ یہی ناقابل اعتماد رہنما ‘ جو خود ہدایت اور نورکے محتاج ہیں‘ ان کے معتمد علیہ بن گئے۔ ان کی مددسے انہوں نے فکرونظر‘ تحقیق واکتشاف‘اورتعمیروتنظیم کی راہ میں بہت کچھ جدوجہد کی مگر ان کو ہرمیدان میں ایک غلط نقطہ آغاز نصیب ہوا اور ان کی تمام ترقیات کا رخ ایک غلط منزل مقصود کی طرف پھرگیا۔ وہ الحاد اورمادیت کے نقطہ سے چلے۔ انہوں نے کائنات کو اس نظرسے دیکھا کہ اس کا کوئی خدا نہیں ہے۔ آفاق اور انفس میں یہ سمجھ کر نظرکی کہ حقیقت جو کچھ بھی ہے مشاہدات اور محسوسات کی ہے اور اس ظاہری پردے کے پیچھے کچھ بھی نہیں۔ تجربہ اور قیاس سے انہوں نے قانون فطرت کو جانا اور سمجھا‘ مگر اس کے فاطر تک نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے موجودات کو مسخرپایا اور ان سے کام لینا شروع کیا مگر اس تخیل سے ان کے ذہن خالی تھے کہ وہ بالاصل ان اشیاءکے مالک اور حکم نہیں ہیں بلکہ اصلی مالک کے خلیفہ ہیں۔ اس جہالت و غفلت نے انہیں ذمہ داری اورجواب دہی کے بنیادی تصورسے بیگانہ کردیا۔ اور اس کی وجہ سے ان کی تہذیب اور ان کے تمدن کی اساس ہی غلط ہوگئی۔ وہ خدا کو چھوڑ کر خودی کے پرستاربن گئے‘ اور خودی نے خدا بن کر ان کو فتنے میں ڈال دیا۔ اب یہ اسی جھوٹے خداکی بندگی ہے جو فکرو عمل کے ہرمیدان میں ان کو ایسے راستوں پر لئے جارہی ہے جن کی درمیانی منزلیں تو نہایت خوش آئند اور نظر فریب ہیں مگر آخری منزل بجز ہلاکت کے اورکوئی نہیں۔ وہی ہے جس نے سائنس کو انسان کی تباہی کا آلہ بنایا۔ اخلاق کو نفسانیت‘ ریا‘ خلاعت اور بے قیدی کے سانچوں میں ڈھال دیا۔ معیشت پرخودغرضی اوربرادرکشی کا شیطان مسلط کردیا۔ معاشرت کی رگ رگ اور ریشہ ریشہ میں نفس پرستی‘ تن آسانی اور خودکامی کا زہراتاردیا۔ سیاست کو قوم پرستی ووطنیت‘ رنگ ونسل کے امتیازات‘ اورخداوند طاقت کی پرستاری سے آلودہ کرکے انسانیت کے لئے ایک بدترین لعنت بنادیا۔ غرض یہ کہ وہ تخم خبیث جو مغرب کی نشاة ثانیہ کے زمانہ میں بویاگیا تھا چند صدیوں کے اندر تمدن وتہذیب کا ایک عظیم الشان شجر خبیث ن کر اٹھاہے جس کے پھل میٹھے مگرزہرآلود ہیں‘ جس کے پھول خوشنما مگر خاردارہیں‘ جس کی شاخیں بہارکا منظر پی کرتی ہیں مگر ایسی زہریلی ہوا اگل رہی ہیں جو نظرنہیں آتی اور اندرہی اندر نوع بشری کے کون کو مسموم کئے جارہی ہے۔

اہل مغرب جنہوں نے اس شجر خبیث کو اپنے ہاتھوں سے لگایاتھا‘ اب خود اس سے بیزارہیں۔ اس نے زندگی کے ہرشعبے میں ایسی الجھنیں اورپریشانیاں پیداکردی ہیں جن کو حل کرنے کی ہرکوشش بہت سی الجھنہیں پیداکردیتی ہے۔ جس شاخ کو کاٹتے ہیں اس کی جگہ بہت سی خاردار شاخیں نکل آتی ہیں۔ سرمایہ داری پرتیشہ چلایا تو اشتراکیت نمودارہوگئی۔جمہوریت پر ضرب لگائی توڈکٹیٹرشپ پھوٹ نکلی۔ اجتماعی مشکلات کو حل کرنا چاہا تو نسوانیت (Feminism) اوربرتھ کنٹرول کا ظہورہوا۔ اخلاقی مفاسد کا علاج کرنے کے لئے قوانین سے کام لینے کی کوشش کی تو قانون شکنی اور جرائم پیشگی نے سراٹھایا۔ غرض فسادکا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو تہذیب وتمدن کے بداصل درخت سے نکل رہاہے اور اس نے مغربی زندگی کو ازسرتاپا مصائب وآلام کا ایک پھوڑا بنادیاہے جس کی ہرگ میں ٹیس اور ہرریشے میں دکھن ہے۔ مغربی قومیں درد سے بے تاب ہورہی ہیں۔ ان کے دل بے قرار ہیں۔ ان کی روحیں کسی امرت رس کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ مگر انہیں خبرنہیں کہ امرت رس کہاں ہے۔ ان کی اکثریت ابھی تک اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مصائب کا سرچشمہ اس شجرخبیث کی محض شاخوں میں ہے اس لئے وہ شاخیں کاٹنے میں اپنا وقت اور اپنی محنتیں ضائع کررہی ہے مگر نہیں سمجھتی کہ خرابی جوکچھ بھی ہے اس درخت کی جڑمیں ہے اور اصل فاسد سے فرع صالح نکلنے کی امید رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ۔ دوسری طرف ایک قلیل جماعت ایسے صحیح العقل لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اس حقیقت کو پالیا ہے کہ ان کے شجر تہذیب کی جڑ خراب ہے مگر چونکہ وہ صدیوں تک اسی درخت کے سایہ میں پرورش پاتے رہے ہیں اور اسی کے ثمرات سے ان کی ہیڈی بوٹی بنی ہے‘ اس لئے ان کے ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس اصل کے بجائے کونسی دوسری اصل ایسی ہوسکتی ہے جو صالح برگ وبارلانے کی قوت رکھتی ہو۔ نتیجہ میں دونوں جماعتوں کا حال ایک ہی ہے۔ وہ سب کے سب بے تابی کے ساتھ کسی چیز کے طالب ہیں جو ان کے دردکا درماں کرے‘ مگر انہیں خبرنہیں ہے کہ ان کا مطلوب کیا اورکہاں ہے۔

یہ وقت ہے کہ مغربی قوموں کے سامنے قرآن اورمحمدﷺ کے طریقہ کو پیش کیاجائے اورانہیں بتایاجائے کہ یہ ہے وہ مطلوب جس کی طلب میں تمہاری روحیں بے قرارہیں‘ یہ ہے وہ امرت رس جس کے تم پیاسے ہو‘ یہ ہے وہ شجرطیب جس کی اصل بھی صالح ہے اورشاخین بھی صالح‘ جس کے پھول خوشبودار بھی ہیں اور بے خاربھی‘ جس کے پھل میٹھے بھی ہیں اورجاں بخش بھی‘ جس کی ہوا لطیف بھی ہے اور روح پروربھی۔ یہاں تم کو خالص حکمت عملی ملے گی‘ یہاں تم کو فکرونظرکے لئے ایک صحیح نقطہ آغازملے گا‘ یہاں تم کو وہ علم ملے گا جو انسانی سیرت کی بہترین تشکیل کرتاہے‘ یہاں تم کو وہ روحانیت ملے گی جو راہبوں اورسنیاسیوں کے لئے نہیں بلکہ کارزاردنیا میں جدوجہد کرنے والوں کے لئے سکون قلب اور جمعیت خاطر کا سرچشمہ ہے‘ یہاں تم کو اخلاق اور قانون کے وہ بلند اور پائیدار قواعدملیں گے جو انسانی فطرت کے علم جامع پر مبنی ہیں اورخواہشات نفس کے اتباع میں بدل نہیں سکتے‘ یہاں تم کو تہذیب وتمدن کے وہ صحیح اصول ملیں گے جو طبقات کے جعلی امتیازات اوراقوام کی مصنوعی تفریقوں کو مٹاکر خالص عقلی بنیادوں پر انسانی جمعیت کی تنظیم کرتے ہیں اور عدل‘ مساوات‘ فیاضی اورحس معاملت کی ایسی پرامن اورمناسب فضا پیداکردیتے ہیں جس میں افراد اور طبقات اورفرقوں کے درمیان حقوق کی کش مکش اورمفادومصالح کے تصادم اور اغراض ومقاصد کی جنگ کے لئے کوئی موقع باقی نہیں رہتا بلکہ سب کے سب باہمی تعاون کے ساتھ شخصی واجتماعی فلاح کے لئے خوش دلی اوراطمینان کے ساتھ عمل کرسکتے ہیں۔ اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہو تو قبل اس کے کہ تمہاری تہذیب ہولناک صدمہ سے پاش پاش ہوکر تاریخ کی برباد شدہ تہذیبوں میں ایک اورمٹی ہوئی تہذیب کا اضافہ کرے تم کو چاہئے کہ اسلام کے خلاف ان تمام تعصبات کو‘ جوتمہیں قرون وسطیٰ کے مذہبی دیوانوں سے وراثت میں ملے ہیں اور جن کو تم نے اس تاریک دورکی تمام دوسری چیزوں سے قطع تعلق کرنے کے باوجود ابھی تک نہیں چھوڑاہے‘ اپنے دلوں سے نکال ڈالو اور کھلے دل کے ساتھ قرآن اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو سنو‘ سمجھو اور قبول کرو۔

مسلمان قوموں کا حال مغربی قوموں کے حال سے مختلف ہے۔ مرض اورہے‘ اسباب مرض بھی دوسرے ہیں‘ مگر علاج ان کا بھی وہی ہے جو اہل مغرب کاہے۔ یعنی اس علم وہدایت کی طرف رجوع جس کو اللہ نے اپنی آخری کتاب اوراپنے آخری نبی کے ذریعہ سے بھیجاہے۔

اسلام کے ساتھ مغربی تہذیب کا تصادم جن حالات میں پیش آیا وہ ان حالات سے بالکل مختلف ہیں جن میں اس سے پہلے اسلام اور دوسری تہذیبوں کے درمیان تصادم ہوئے ہیں۔ رومی‘ فارسی‘ ہندی اورچینی تہذیبیں اس وقت اسلام سے ٹکرائیں جب اسلام اپنے متبعین کی فکری وعملی قوتوں پرپورے زورکے ساتھ حکمران تھا۔ جہاد اور اجتہاد کی زبردست روح ان کے اندرکارفرماتھی‘ روحانی اورمادی دونوں حیثیتوں سے وہ دنیا میں ایک غالب قوم تھے اورتمام اقوام عالم کی پیشوائی کا منصب ان کو حاصل تھا۔ اس وقت کوئی تہذیب ان کی تہذیب کے مقابلہ میں نہ ٹھہرسکی۔ انہوں نے جس طرف رخ کیا‘ قوموں کے خیالات‘ نظریات‘ علوم‘ اخلاق وعادات اور طرز تمدن میں انقلاب پیداکردیا۔ ان میں تاثرکی قابلیت کم اور تاثیرکی قوت بہت زیادہ تھی۔ بلاشبہ انہوں نے دوسروں سے بہت کچھ لیا‘مگر ان کی تہذیب کا مزاج اس قدر طاقت ور اورمضبوط تھا کہ باہرسے جو چیز بھی اس میں آئی وہ اس کی طبیعت کے مطابق ڈھل گئی اور کسی بیرونی اثر سے اس میں سوءمزاج مختلف پیدا نہ ہو سکا۔ بخلاف اس کے انہوں نے جو اثرات دوسروں پرڈالے وہ انقلاب انگیز ثابت ہوئے۔ بعض غیرمسلم تہذیبیں تو اسلام میں جذب ہوکر اپنی انفرادیت ہی کھوبیٹھیں‘ اوربعض جن میں زندگی کی طاقت زیادہ تھی وہ اسلام سے اس قدر متاثرہوئیں کہ ان کے اصول میں بہت کچھ تغیرواقع ہوگیا۔ مگر یہ قصہ ہے جب کہ آتش جواں تھا۔

مسلمان صدیوں تک قلم اور تلوار کے ساتھ فرما روائی کرتے کرتے آخرکارتھک گئے۔ ان کی روح جہاد سردپڑگئی۔ قوت اجتہاد شل ہوگئی جس کتاب نے ان کو علم کی روشنی اور عمل کی طاقت بخشی تھی اس کو انہوں نے محض ایک متبرک یادگار بناکر غلافوں میں لپیٹ دیا۔ جس ہادی اعظم کی سنت نے ان کی تہذیب کو ایک مکمل فکری وعملی نظام کی صورت بخشی تھی اس کی پیروی کو انہوں نے چھوڑدیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی کی رفتار رک گئی۔ بہتا ہوا دریا یکایک جمود کی وادی میں ٹھہرکر تالاب بن گیا۔ امامت کے منصب سے مسلمان معزول ہوئے۔ دنیا کی قوموں پر ان کے افکار‘ ان کے علوم‘ ان کے تمدن اور ان کے سیاسی اقتدارنے جو قابو پالیا تھا‘ ان کی گرفت ڈھیلی ہوگئی۔ پھر اسلام کے بالمقابل ایک دوسری تہذیب نے جنم لیا۔ جہاد اوراجتہاد کا جھنڈا جس کو مسلمانوں نے پھینک دیاتھا‘ مغربی قوموں نے اٹھالیا مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کر علم وعمل کے میدان میں آگے بڑھے‘ یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے ان کو مل گیا۔ ان کی تلوارنے دنیا کے سواد اعظم کو فتح کیا۔ ان کے افکار ونظریات‘ علوم وفنون اور اصول تہذیب وتمدن دنیا پرچھاگئے‘ ان کی فرمانروائی‘ نے صرف اجسام ہی کا نہیں‘ دلوں اور دماغوں کابھی احاطہ کرلیا۔ آخر صدیوں کی نیند سے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انہوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل چکاہے۔ دوسرے اس پر قابض ہوچکے ہیں۔ اب علم ہے تو ان کاہے‘ تہذیب ہے تو ان کی ہے‘ قانون ہے تو ان کا ہے‘ حکومت ہے تو ان کی ہے‘ مسلمانوں کے پاس کچھ بھی نہیں۔

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

اب اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم ایک دوسرے ڈھنگ پر ہورہاہے۔ یقیناً مغربی تہذیب کسی حیثیت سے بھی اسلام کے مقابلہ کی تہذیب نہیں۔ اگر تصادم اسلام سے ہوتو دنیا کی کوئی قوت اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہرسکتی۔ مگر اسلام ہے کہاں؟ مسلمانوں میں نہ اسلامی سیرت ہے‘ نہ اسلامی اخلاق‘ نہ اسلامی افکار ہیں نہ اسلامی جذبہ۔ حقیقی اسلامی روح نہ ان کی مسجدوں میں ہے نہ مدرسوں میں‘ نہ خانقاہوں میں۔ عملی زندگی سے اسلام کا ربط باقی نہیں رہا۔ اسلام کا قانون نہ ان کی شخصی زندگی میں نافذ ہے نہ اجتماعی زندگی میں۔ تمدن وتہذیب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس کا نظم صحیح اسلامی طرز پرباقی ہو۔ ایسی حالت میں دراصل مقابلہ اسلام اورمغربی تہذیب کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی افسردہ‘ جامد اور پسماندہ تہذیب کا مقابلہ ایک ایسی تہذیب سے ہے جس میں زندگی ہے‘ حرکت ہے‘ روشنی علم ہے‘ گرمی عمل ہے۔ ایسے نامساوی مقابلہ کا جو نتیجہ ہوسکتاہے وہی ظاہرہورہاہے۔ مسلمان پسپاہورہے ہیں۔ ان کی تہذیب شکست کھارہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ مغربی تہذیب میں جذب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ان کے دلوں اوردماغوں پرمغربیت مسلط ہورہی ہے۔ ان کے ذہن مغربی سانچوں میں ڈھل رہے ہیں‘ ان کی فکری ونظری قوتیں مغربی اصولوں کے مطابق تربیت پارہی ہیں۔ ان کے تصورات‘ ان کے اخلاق ‘ ان کی معیشت‘ ان کی معاشرت‘ ان کی سیاست‘ ہرچیزمغربی رنگ میں رنگی جارہی ہے۔ ان کی نئی نسلیں اس تخیل کے ساتھ اٹھ رہی ہیں کہ زندگی کا حقیقی قانون وہی ہے جو مغرب سے ان کو مل رہاہے۔ یہ شکست دراصل مسلمانوں کی شکست ہے مگر بدقسمتی سے اس کو اسلام کی شکست سمجھاجاتاہے۔

ایک ملک نہیں جو اس مصیبت میں گرفتارہو۔ ایک قوم نہیں جو اس خطرہ میں مبتلا ہو۔ آج تمام دنیا ئے اسلام اسی خوفناک انقلاب کے دورسے گزررہی ہے درحقیقت یہ علماءکاکام تھا کہ جب اس انقلاب کی ابتدا ہورہی تھی اس وقت وہ بیدار ہوتے‘ آنے والی تہذیب کے اصول ومبادی کو سمجھتے‘ مغربی ممالک کا سفرکرکے ان علوم کامطالعہ کرتے جن کی بنیاد پر یہ تہذیب اٹھی ہے۔ اجتہاد کی قوت سے کام لے کر ان کارآمدعلمی اکتشافات اورعملی طریقوں کو اخذ کرلیتے جن کے بل پر مغربی قوموں نے ترقی کی ہے اور ان نئے کل پرزوںکو اصول اسلام کے ماتحت مسلمانوں کے تعلیمی نظام اور ان کی تمدنی زندگی کی مشین میں اس طرح نصب کردیتے کہ صدیوں کے جمود سے جو نقصان پہنچاتھا اس کی تلافی ہوجاتی اور اسلام کی گاڑی پھرسے زمانہ کی رفتار کے ساتھ چلنے لگتی۔ مگر افسوس کہ علماء(الاماشاءاللہ ) خود اسلام کی تحقیقی روح سے خالی ہوچکے تھے۔ ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی‘ ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی وعملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اورلکچدار اصول اخذکرتے اورزمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے۔ ان پر تو اسلاف کی اندھی اورجامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہوچکاتھا جس کی وجہ سے وہ ہرچیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانہ کی قیودسے بالاترہوتیں۔ وہ ہرمعاملہ میں ان انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اورحالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کرسکتے جبکہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم وعمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیرواقع ہوچکا تھا جس کو خداکی نظرتو دیکھ سکتی تھی‘ مگر کسی غیر نبی انسان کی نظرمیں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اورصدیوں کے پردے اٹھاکر ان تک پہنچ سکتی۔ اس میں شک نہیں کہ علمانے نئی تہذیب کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کی‘ مگر مقابلہ کے لئے جس سروسامان کی ضرورت ھی وہ ان کے پاس نہ تھا۔ حرکت کا مقابلہ جمود سے نہیں ہوسکتا۔ رفتار زمانہ کو منطق کے زورسے نہیں بدلاجاسکتا۔ نئے اسلحہ کے سامنے فرسودہ اور زنگ آلود ہتھیارکام نہیں دے سکتے۔

علماءنے جن طریقوں سے امت کی رہنمائی کرنی چاہی ان کا کامیاب ہونا کسی طرح ممکن ہی نہ تھا۔ جو قوم مغربی تہذیب کے طوفان میں گھرچکی تھی وہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اورحواس کو معطل کرکے کب تک طوفان کے وجود سے انکارکرتی اور اس کے اثرات سے محفوظ رہتی؟ جس قوم پر تمدن وتہذیب کا جدید نظام سیاسی طاقت کے ساتھ محیط ہوچکا تھا وہ اپنی عملی زندگی کو مغلوبی ومحکومی کی حالت میں اس کے نفوذ واثرسے کس طرح بچاسکتی تھی؟ آخرکار وہی ہوا جو ایسے حالات میں ہونا چاہئے تھا۔ سیاست کے میدان میں شکست کھانے کے بعد مسلمانوں نے علم اور تہذیب وتمدن کے میدان میں بھی شکست کھائی اور اب ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ دنیائے اسلام کے ہرخطہ میں مغربیت کا طوفان بلاکی تیزی سے بڑھتا چلاآرہاہے جس کی رومیں بہتے بہتے مسلمانوں کی نئی نسلیں اسلام کے مرکز سے دور کوسوں دور نکل گئیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ علمائے اسلام کو اب تک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہواہے قریب قریب ہر اسلامی ملک میں علماءکی جماعت اب بھی اسی روش پرقائم ہے جس کی وجہ سے ابتدا میں ان کو ناکامی ہوئی تھی۔ چند مستثنیٰ شخصیتوں کو چھوڑ کر علماءکی عام حالت یہ ہے کہ وہ زمانے کے موجودہ رجحانات اور ذہنیتوں کی نئی ساخت کو سمجھنے کی قطعاً کوشش نہیں کرتے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اسلام سے بیگانہ کررہی ہیں ان پر اظہار نفرت تو ان سے جتنا چاہے کرالیجئے لیکن اس زہر کا تریاق بہم پہنچانے کی زحمت وہ نہیں اٹھاسکتے۔ جدید حالات نے مسلمانوں کے لئے جو پیچیدہ علمی اورعملی مسائل پیدا کردیئے ہیں ان کو حل کرنے میں ان حضرات کو ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ان مسائل کا حل اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں۔ اور اجتہاد کو یہ اپنے اوپر حرام کرچکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کے قوانین کوبیان کرنے کا جو طریقہ آج ہمارے علماءاختیار کررہے ہیں وہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو اسلام سے مانوس کرنے کے بجائے الٹامتنفر کردیتاہے اور بسا اوقات ان کے مواعظ سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر بے اختیار دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ خدا کرے کسی غیر مسلم یا بھٹکے ہوئے مسلمان کے چشم وگوش تک یہ صدائے بے ہنگام نہ پہنچی ہو۔ انہوں نے اپنے اردگرد سوبرس پرانی فضا پیدا کررکھی ہے۔اسی فضا میں سوچتے ہیں‘ اسی میں رہتے ہی اور اسی کے مناسب حال باتیں کرتے ہیں۔ بلاشبہ علوم اسلامی کے جوہرآج دنیا میں انہی بزرگوں کے دم سے قائم ہیں اور جو کچھ دینی تعلیم پھیل رہی ہے انہی کے ذریعہ سے پھیل رہی ہے۔ لیکن دوسو برس کی جو وسیع خلیج انہوں نے اپنے اور زمانہ حال کے درمیان حائل کررکھی ہے وہ اسلام اور جدید دنیا کے درمیان کوئی ربط قائم نہیں ہونے دیتی۔ جو اسلامی تعلیم کی طرف جاتا ہے وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ جو دنیا کے کام کا بننا چاہتاہے وہ اسلامی تعلیم سے بالکل بیگانہ رہتاہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت دنیائے اسلام میں ہرجگہ دو ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جوبالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک گروہ اسلامی علوم اور اسلامی ثقافت کا علمبردارہے مگر زندگی کے ہرشعبے میں مسلمانوں کی رہنمائی کے قابل نہیں۔ دوسرا گروہ مسلمانوں کی علمی‘ ادبیا ور سیاسی گاڑی کو چلارہاہے مگر اسلام کے اصولوں ومبادی سے ناواقف ہے‘ اسلامی تہذیب کی اسپرٹ سے بیگانہ ہے‘ اسلام کے اجتماعی نظام اور تمدنی قوانین سے ناآشناہے۔ صرف دل کے ایک گوشہ میں ایمان کا گھوڑا بہت نوررکھتاہے‘ باقی تمام حیثیتوں سے اس میں اور ایک غیرمسلم میں کوئی فرق نہیں ۔ مگر چونکہ علمی وعملی طاقت جو کچھ بھی ہے اسی گروہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی کے دست وبازو ہیں جو گاڑی چلانے کی طاقت رکھتے ہیں‘ اس لئے وہ ملت کی گاڑی کو لے کر گمراہی کی وادیوں میں بھٹکا چلاجارہاہے اورکوئی نہیں جو اس کو سیدھا راستہ بتائے۔

میں اس حالت کو دیکھ رہاہوں اور اس کا خوفناک انجام میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اگرچہ رہنمائی کے لئے جس علم وفضل اورجامعیت کی ضرورت ہے وہ مجھ کو حاصل نہیں۔ نہ اتنی قوت میسرہے کہ ایسے بگڑے ہوئے حالات میں اتنی بڑی قوم کی اصلاح کرسکوں۔لیکن اللہ نے دل میں ایک درددیاہے اور وہی درد مجبورکرتاہے کہ جو تھوڑا سا علم اور نور بصیرت اللہ تعالیٰ نے بخشاہے اس سے کام لے کر مسلمانوں کے ان دونوں گروہوں کو اسلامی تعلیم کے اصل منبع اور اسلامی تہذیب کے حقیقی سرچشمہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دوں اور کامیابی وناکامی سے بے پروا ہوکر اپنی سی کوشش کردیکھوں۔ کام کی بزرگی اور اپنی کمزوری کو دیکھ کر اپنی کوششیں خود مجھ کو ہیچ میرز معلوم ہوتی ہیں مگر کامیابی اور ناکامی جو کچھ بھی ہے اس قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے۔ میرا کام کوشش کرناہے اور اپنی حد وسع تک میں اپنی کوشش کے دائرے کو پھیلانا چاہتاہوں۔

(ترجمان القرآن ۔ رجب 1354ھ اکتوبر

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا : احمد ندیم قاسمی

اب ترے رُخ پر محبت کی شفق پھولی تو کیا
حسن بر حق ہے ، مگر جب بجھ چکا ہو جی تو کیا

جب ترا کہنا ہے ، تو تقدیر کا محکوم ہے
تُو نے نفرت کی تو کیا، تُو نے محبت کی تو کیا

اب کہاں سے لاؤں وہ آنکھیں جو لذت یاب ہوں
دستِ باراں نے مرے در پر جو دتک دی تو کیا

دھوپ کرنوں میں پرو لے جائے گی ساری نمی
رات بھر پھولوں نے دستِ شب سے شبنم پی تو کیا

اب تو سیلابوں سے جل تھل ہو گئیں آبادیاں
اب مرے کھیتوں کی لاشوں پر گھٹا برسی تو کیا

چور جس گھر میں پلیں، اُس گھر کو کیسے بخش دیں
لُوٹنے آئے ہیں ہم لوگوں کو اپنے ہی تو کیا

ہم نہیں ہوں گے تو پھر کس کام کی تحسینِ شعر
روشنی اک روز ان لفظوں سے پُھوٹے گی تو کیا

دُور کی آہٹ تو آ پہنچی ہے اب سر پر ندیم
آگہی نے مدتوں کے بعد کروٹ لی تو کیا