ہماری عبادات اور حقیقی بادشاہ

میں نے کچھ عرصہ پہلے یہ واقعہ پڑھا تھا ۔ جو کہ آپ لوگوں کیساتھ شیر کر رہا ہوں۔۔
یہ کہانی ہے ایک رحم دل اور نیک بادشاہ کی جواپنی رعایا کے حق میں بہت اچھا تھا چنانچہ تمام رعایا اس سے محبت کرتی اور دعائیں دیتی تھی
اسی ملک کے ایک دور دراز گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا جس کی خواہش تھی کہ اپنے نیک دل بادشاہ کی زیارت کی جائے اور اسے کوئی تحفہ دیا جائے اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ میں بادشاہ کو ملنے کے لیے جانا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ میں اس کوئی تحفہ بھی دوں تم مجھے مشورہ دو کہ میں بادشاہ کے لیے کیا تحفہ لے کر جاؤں ۔ بیوی نے کچھ دیر سوچا اور کہا کہ بادشاہ کے پاس تو ہر چیز ہوگی ہم اسے کیا تحفہ دے سکتے ہیں ہاں میرا ایک مشورہ ہے کہ ہمارے گھر کے پاس بہنے والے چشمے کا پانی بہت میٹھا اور ٹھنڈا ہے اور ایسا پانی پورے ملک میں کہیں بھی نہیں ہوگا حتیٰ کے بادشاہ کے پاس بھی نہیں ہوگا تو تم اس کے لیے یہ پانی لے جاؤ ۔ کسان کو یہ تجویز پسند آگئی اور اس نے اپنے چشمے سے پانی کے دو گھڑے بھرے اور اپنے گدھے پر لاد کر بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگیا
کئی ہفتوں کے سفر کے بعد بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور ملاقات کی اجازت چاہی
اجازت ملنے پر بادشاہ کو تحفہ پیش کیا اور بتایا کہ یہ میرے گاؤں کے چشمے کا پانی ہے اور ایسا میٹھا اور ٹھنڈا پانی آپ کو پورے ملک میں کہیں بھی نہیں ملے گا ۔ بادشاہ کے اشارے پر وزیر نے گھڑے کا ڈھکن اٹھایا تو کئی ہفتوں کے سفر کی وجہ سے پانی میں بدبو پیدا ہوگئی تھی وزیر نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو بادشاہ نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور باآواز بلند کہا کہ ہم اس تحفے سے بہت خوش ہوئے اور خزانچی کو حکم دیا کہ اس کسان کے گھڑوں کو سونے سے بھر دیا جائے ، کسان بہت خوش ہوا ، بادشاہ نے وزیر کو بلا کر چپکے سے کہا کہ پانی کو گرا دینا اور واپسی پر اس کسان کو اس رستے سے گزارنا جہاں ہمارے چشمے ہیں تاکہ اس علم ہو کہ ہمارے پاس پانی کے کتنے چشمے ہیں اور انکا پانی کتنا ٹھنڈا اور فرحت بخش ہے
چانچہ جب کسان کو انعامات دینے کے بعد ان چشموں کے پاس سے گزارا گیا تو وہ سمجھ گیا کہ اس کا تحفہ کتنا حقیر تھا لیکن بادشاہ نے اسکے حقیر تحفے کو بھی قبول کرکے اسے انعام سے نوازا ۔ اس کے دل میں بادشاہ کے لیے محبت اور عقیدت اور گہری ہوگئی

ہماری عبادات کا بھی یہی حال ہے ہم جو ٹوٹی پھوٹی عبادت کرتے ہیں تو ہم اسے بہت اچھی سمجھتے ہیں اور اپنے مالک کے حضور پیش کرتے ہیں ، ان عبادات کی حقیقت معلوم ہونے کے باوجود وہ مالک المک نہ صرف ان عبادات کو قبول کرتا ہے بلکہ انعام کے طور پر بے بہا نعمتوں سے بھی نوازتا ہے حالانکہ اسے ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ عبادت کے لیے تو فرشتے ہی کافی ہیں
اب ہم ان ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو پیش کرکے اسکی نعمتیں حاصل کرنے والے بھی نہ رہے تو ہم جیسا بدنصیب کون ہوگا وہ تو ہر وقت دینے کے لیے تیار ہے لیکن ہمارے پاس ہی لینے کے لیے وقت نہیں ہے کاش کہ ہمیں اس بات کی سمجھ آجائے ورنہ جب مرنے کے بعد سمجھ آئے گی تو بہت دیر ہوچکی ہوگی.

محبت

محبت چھلاوہ ھے۔ ۔ ۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ھے کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ھیں اتصال جسم کے خواہاں ھیں ۔ کچھ آپ کی روح کے لیئے تڑپتے ھیں کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ھو جانا چاھتے ھیں ۔ کچھ کو سمجھ سوچ

love

ادراک کی سمتوں پر چھا جانے کا شوق ھوتا ھے ۔ ۔ ۔ محبت چھلاوہ ھے لاکھ روپ بدلتی ھے ۔ ۔ ۔ اسی لیئے لاکھ چاھو ایک آدمی آپ کی تمام ضرورتیں پوری کر دے یہ ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ اور بالفرض کوئی آپ کی ھر سمت ھر جہت کے خلا کو پورا بھی کر دے تو اس بات کی کیا گارنٹی ھے کہ آپ اس کی ھر ضرورت کو ھر جگہ ھر موسم اور ھر عہد میں پورا کرسکیں گے ۔ ۔ ۔ انسان جامد نہیں ھے بڑھنے والا ھے اوپر دائیں بائیں ۔ ۔ ۔ اس کی

 ضروریات کو تم پابند نہیں کر سکتے ۔۔۔

ًبانو قدسیہ کے ناول، راجہ گدھ سے اقتباس