گلگت بلتستان میں خواتین کی حکمرانی


اگر بزمِ انساں میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی

کچھ دن قبل “End Violence Against Women” کے موضوع پر ترقی پسند نوجوانوں کی ایک تنظیم نے ایک سمینار میں گلگت بلتستان کی تاریخ میں خواتین کی حکمرانی پر کچھ بولنے کی دعوت دی، جس میں اپنی ناقص علم و سمجھ کے مطابق اپنے خیالا ت کا اظہار کیا، اس میں کچھ شک نہیں کہ عورت ایک خوشحال اور زندہ معاشرے کا روح رواں ہے۔

انسانی معاشرے بحیثیت اجتماعی ہو یا انفرادی جب اعتدال سے ہٹ جاتے ہیں تو وہ غیرصحت مندانہ معاشرہ یا فرد کہلاتا ہے۔یہ بات مسلم ہے کہ مرد اور عورت ایک زندہ معاشرے کے دو پر ہیں جس پر پورے معاشرے کا اڑان اور بلندی کی طرف پرواز منحصر کرتا ہے اگر ان میں سے کوئی ایک پر بھی کاٹ دی جائَے تو یہ معاشرہ لنگڑا، گونگا، بہرا معاشرہ بن جاتا ہے،اور یہ لنگڑا معاشرہ کسی درندہ صفت مخلوق کا نظر ہوجاتا ہے اور آخر کار موت اسکا مقدر بن جاتا ہے ۔

ایم ایم قیزل

جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کبھِی عورت کو کو بہت اونچا مقام دیا تو کبھی اسکی اتنی تزلیل کی کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے اسے کبھی دیوی بنا کر اسکی پوجا کی گئی تو کبھی شیطان ، کند ذہین ، فتنہ و فساد کی جڑ گردان کر زندہ درگور کیا گیا۔ اسے کبھی جنس لطیف، وجہ سکون، صنف ناک، جیسے الفاظ سے تعبیر کیا تو لونڈی، وجہ شر جیسے نازیب الفاب سے تشبہ دی گئی۔

جب فطرت کی جدید تخلیق، یعنی عورت معضوع گفتگو ہو اور تو کوئی وادی حسن و جمال، سر زمین آبشار، وادی گل پوش و برف پوش گلگت بلتستان کی بلند و بالا پہاڈوں پر بسیرا کرنے والی عورتوں کو کوئی صرف نظر کیسے کر سکتا ہے ۔ جس طرح گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے بلند اور اونچا ہے اسی طرح ان بلندیوں میں رہنے والی خواتین بھی با ہمت ، دلیر، بہادر اور بلند کردار کے مالک ہیں۔ اس کی مثال تاریخ میں حکمرانی کرنے والی ملکہ نوربخت، دادی جواری اور نور بی بی تھے اور عصر حاضر میں علم و فن ،سپورٹس، تحقیق اور آرٹ میں ملکی اور غیر ملکی سطح پر نمایاں کردار ادا کرنے والے کئی خواتین آپ کے سامنے ہیں ۔

آئیں آپ کو گلگت بلتستان پر حمکرانی کرنے والے ان با صلاحیت خواتین سے روشناس کراوں جنہوں نے تخت بادشاہت پر جلوہ فرما ہو کر حکومت سنبھالی۔ یہ قدیم دردستان ہو کہ بروشال یا موجودہ گلگت بلتستان گلگت ہمیشہ سے درالخلافہ رہا، کہتے ہیں کہ قصر نامی راجہ جو کہ بدھ مت کا پیروکار تھا نے یار قند، ترکتسان، بدخشان، اور چترال کو فتح کرتے ہوئے گلگت پر وارد ہوئے اور یہاں “بغیرتھم” کو اپنا گورنر بنا کر یہاں سے نکل پڑے۔اس کے بعد بغیر تھم کے خاندان نے اس علاقے پر حکومت کی، بغیرتھم کے بعد اس کا بیٹا آغور تھم نے تخت گلگت سنبھالا، جس سے تارِیخ گلگت بلتستان کے ظالم و جابر حکمران شری بدت پیدا ہوئَے۔اس جابربادشاہ کے متعلق بہت سی غیر یقینی روایات مشہور ہیں جو سینہ بہ سینہ چل کر یہاں تک پہنچیں ہیں، اس آدم خور بادشاہ شری بدت کی صرف ایک اکلوتی بیٹی نور بخت تھی جس کی پرورش انکا رضاعی باپ “جٹئےلوٹو” کے زمے تھا۔ لوگ اس آدم خور بادشاہ سے نجات حاصل کرنا چاہتے تھے مگر کرے بھی تو کیسے، ایک دن ہوا یوں کہ ایران سے ایک قافلہ پہنچا جس میں وہاں کے شاہی خاندان کا ایک فرد آزرجمشید تھا، جٹئے لوٹو، اور شری بدت بادشاہ کے دو وزیرشردہ بین اور اردہ کون نے اس شاہی خاندان کے اوالاد کو نجات دہندہ سمجھ کر ملکہ نور بخت کی آزرجمشید سے شادی کرالی جو کہ بعد میں واپس چلا گیا۔

لوگوں نے آخر کار ملکہ نور بخت کی مدد سے اس ظالم بادشاہ کو قتل کیا اور ملکہ نور بخت خود تخت گلگت پر براجمان ہوئی۔ ملکہ نور بخت نے 14 سال تک حکومت بڑی خوش اسلوبی اور نہایت تدبر سے چلائی۔ انہوں نے اپنے ظالم باپ کی حکومت سے نجات دلانے میں عوام کا بھر پور ساتھ دیا۔ پھراس نے حکومت کی بھاگ دوڈ اپنا بیٹا راجہ کرک کے حوالے کیا۔

یوں ابن بادشاہ ابن بادشاہ کی کہانی چل رہی تھی کہ گلگت کا راجہ شیر خان اپنا ہی وزیر ایشو اور یاسین کا راجہ خوشوقت کے ہاتھوں قتل ہوا تو اسکا بیٹا مرزہ خان تخت نشین ہوئے اسے بھی اسی وزیر ایشو نے نگر کا راجہ کمال خان کے ہاتھوں قتل کرایا۔ راجہ مرزا کی ایک اکلوتی بیٹی جوار خاتون کو گلگت کے تخت پر بیٹھایا گیا جوار خاتون انتہائی دانشمند اور دور اندیش تھی یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں کے مطابق 1635ء کا ہے ۔ جب چالاک وزیر ایشو نے دادی جواری کی شادی نگر کے ایک گشپور فردوس سے کرالی اور پھر اسے واپس نگر بھیج دیا تو دادی جواری نے ایشو کے عڑائم سمجھ گئی اور اسے بگروٹ کسی بہانے سے بلا کر قتل کیا اور حکومت کی بھاگ ڈور مکمل طور پر خود سنبھال لی۔ رانی یا دادی جواری اپنے وقت کی ایک مدبر اور بہترین حکمران ثابت ہوئِی وہ ان سے پہلے آئے ہوئے تمام حکمرانوں پر نمایاں نظر آتی ہے ۔ وہ جرات و استقلال میں بے مثال تھی۔کہتے ہیں کہ سلطنت کے ہر کام اور ہر گوشے پر اسکی نظر تھی۔ انہوں نے اپنی عہد میں کر گہ نالہ سے گلگت شہر کے لئے پانی کا نہر بنوایا۔ جو کہ ایک اہم کارنامہ ہے ۔ نیز وہ گرمیوں میں راریل جاتی اورمو سم خزان میں گلگت آجاتی تھی۔

آئیے گلگت کے مضافات سے نکل کر وادی ہنزہ کی طرف چلتے ہیں جہاں نور بی بی نام کے ایک خاتون حمکران کیسے بنی ۔ ریاست ہنزہ نگر کئی عشروں تک ایک ہی بادشاہ کے زیر تسلظ رہا۔ راجا میعور خان۔۔ لالی تھم ۔۔ جس کا نسب گلگت کے راجہ رئیس خان سے ملتا ہے نے گلگت کے راجہ ترا خان کی بیٹی سے شادی کی جس سے دو بچے جمشید مغلوٹ اور صاحب خان گرکس پیدا ہوئے۔ دونوں بچوں میں تناو ختم کرانے کے لئے لالی تھم نے بڑا بیٹا گرکس کو ہنزہ اور چھوٹا بیٹا مغلوٹ کو نگر کی حکومت دے دی۔ جس پر مغلوٹ نے گرکس کے ساتھ دشمنی مول لی ۔ چناچہ دونوں میں شدید مخالفت پیدا ہوئِ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے، بعد اذاں جب مغلوٹ کو موقع ملا تو اسکے حامی آدمی مغل بیگ کی مدد سے گرکس کو قتل کر دیا۔

راجہ صاحب خان ۔۔گرکس کے قتل کے بعد اسکی اکلوتی بیٹی نور بی بی اسکا جانشین بنی اور تقریبا 13 سال تک ریاست ہنزہ پر حکمرانی کی ۔ جب اہلیان ہنزہ پر یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ تخت ہنزہ کا اگلا وارث کون ہوگا؟ اس سلسلے میں عمائدین نے آپس میں مشاورت کی اور شغنان سے ایک راجہ خاندان کے اوالاد عایشو کو لے آئے اور غنیش ملکہ نور بی بی سے شادی کرا کے بادشاہ کے تخت پر بیٹھایا۔ خواتین ہنزہ کو اگر تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ جو دیکھا بال، عزت و احترام، انکی پرورش کا خیال ،انکی حوصلہ افزائی جس طرح تاریخ میں ہوئی آج ہم نے وہ بہترین اقدار کھو دئیے ہیں ۔ مثلاَ ایک عورت کی عزت و آبرو، اور انکی تحفظ کا ذمہ دار صرف انکے ماں باپ ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ انکا پورا قبیلہ اسکی عزت و احترام کے لئَے کھڑے ہوتے اسکی عزت یعنی” شلژن مو ننگ” کسی قبیلے میں ہونا ان کے لئے باعث فخر ہوتا تھا۔ آج ہم اس روایت کو کھو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہنزہ کے لوگ علاقے میں موجود شریف ، پاک دامن اور فرماں بردار عورتوں کا ایک تہوار “بوت” مناتے تھے جس میں ایسے عورتوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کے نام پر مسافر خانے ، راستے ، نہریں اور دوسرے چیزیں بناتے اور یہ اس خاندان، قبیلہ اور علاقے کے لوگوں کے لئے باعث فخرہو تا، اس علاوہ کئی اورایسے مثبت اقدار ہیں جنہیں دوباراپنا سکتے ہیں۔

گلگت بلتسان کی تاریخ و حال کو اگر دنیا کے دوسرے حصوں سے موازنہ کیا جائے تو عورتوں کے لئے اس معاشرے میں ہمیشہ سے نرم گوشہ رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پندرھویں صدی ہجری میں بھی عورت کو اس علاقے پر حکمرانی کرنے کا حقوق ملا جو دور حاضر کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ، ہر معاشرے میں منفی اور مثبت پہلوں ہوا کرتے ہیں عورت کسی صورت بھی مرد سے کم نہیں انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک مرد کو ہیں، بزبان حمکت هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وہی خد اہے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے.

PT

بیمار معاشرے میں حسنین کا قتل ، زمہ دار کون ؟؟

آخر کیوں یہ معاشرہ اتنا بے حس ہوتا جا رہا ہے۔ معصوم حسنین پر جنسی تشدد  پھربہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کا  نہ صرف اخلاقی زوال ، بلکہ انسانی اقدار کا انحاط ، غیر مہذب معاشرے کا عکاسی بھِی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو انسانی ضمیر کو جھنجوڑ دے  مگر ہمارا معاشرہ اتنا مردہ ہو چکا ہے کہ اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور یہ بیمار قوم نیم مردہ حالات میں خاموش رہتے ہیں، ہمارا معاشرہ خود غرضی ، مفاد پرستی،انا پرستی، اور بے حسی کی انتہا کو چھو چکا ہے برائی ، ظلم و بربریت اور نا انصافی کی آگ نے ہر گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، یہ معاشرہ غیر مہذب ، جبر اور تباہی کے ایسی پاتال میں گر چکا ہے جس سے جان چھڑانا نا ممکن سا ہوگیا ہے۔ بے حسی کا زہراس طرح ہماری رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے جیسے نشے میں دھت افراد غلاظت میں پڑے رہنے کے باجود گندگی اور بدبو کی احساس سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ بیمار قوم ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہے جس کا نہ انہیں احساس ہے اور نہ ہی اسکا علاج کرانا چاہتے ہیں۔ اور اگر کوئی انکی بیماری کا تشخیص کرئے بھی تو اسکا جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس گھناونی جرم پر آمادہ کرنے والے عوامل کیا ہیں۔ ؟ اس معاشرے کو کند ذہن۔ بیمار اور بے حس بنانے میں کس کا ہا تھ ہے ؟ بہت سے احباب ، دوست اور لوگوں کا خیال ہے کہ معاشرے کا اخلاقی انحاط میں میڈیا، یعنی ٹی وی، انٹر نیٹ ، فلمیں اور موبائل فون وغیرہ جیسے چیزیں ہیں جو انہیں اور انکے بچوں کو برائی پر اکسا دیتی ہیں، انہیں مرتد بنا دیتی ہیں ،انہیں برائی پر اکساتی ہیں، گویا برائِی کا جڑیہی ہے ،  ۔ ۔  ذرا سوچیے ہمارا  معاشرہ آئی ٹی کے سامنے کتنا لاچار اور مجبور ہو چکا ہے، کہ بس انہیں دیکھتے ہی برائی آ گھیر لیتی ہے ۔ انہیں چھوتے ہی جنسی درندے بن جاتے ہیں ،انہیں دیکھتے ہی اخلاقی اصولوں کو پامال کرنا شروع کرتے ہیں ۔  ۔۔ ذرا خود بتائیں  کیا یہ کوئی معقول جواز ہے ؟

یہی چیزیں اہل مغرب و مشرق کے اہل خرد، اور دانشمند انسان استعمال کر کے سیاروں کو تسخیر کرتے ہیں ، یہی موبائل رشتوں کو مضبوط و مستحکام کرتا ہے اور خاندان کے حال و احوال سے باخبر رکھتا ہے ، یہی ٹی وی دنیا کے ایک کونے کو دوسرے کونے کے لوگوں کا ساتھ جوڑے رکھتا ہے ، ان پر تہذیب و تمدن  کی نئی جہتے عیان کرتا ہے ، مگر مسلم معاشرے ان سائنسی ایجادات  کو کیوں وبال جان سمجھتے ہیں اورپھر  ایسا بھِی نہیں کہ ان کو استعمال کرتے نہ ہوں ۔

برائی ، اخلاقی اقدار کا انحاط ، انسانیت سوز اور اندوھناک واقعات  کا جڑ سائینسی ایجادات ہر گزنہیں ۔ اس کا زمہ وہ علماء ہیں ، جو اسلام کو چودہ سو سال پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں ، جو معاشرے کو جدید علم سے دور رکھتے ہیں، جو معاشرے کو غیرمنطقی باتوں میں الجھا کر حقیت سے ناآشنا رکھتے ہیں ۔آج شہر گلگت مسلک کی بنیادوں پر بٹا ہوا ہے ۔ شیعہ ، سنی ، اور اسماعیلی محلے الگ الگ ، ان کے آنے جانے کے راستے الگ الگ ، ان کفن دفن کے جگہیں الگ الگ ، یہاں تک کہ کھیل کود کےمیدان بھی الگ الگ ، ہمارے سماجی ، معاشی و معاشرتی میل جول بھی الگ الگ، تعلیم و تدریس کے مراکز بھی الگ الگ ، ایسے حالات میں کیا یم معاشرے سے معنی خیز، شرافت پسند، رجائیت پسند، اور امن پسند نسل کی افزایش کا کیسے امید رکھ سکتے ہیں ؟۔ ، آج  معاشرے میں  غیر یقینی حالات ، غیر اخلاقی کام ، نفسانفسی ، نفرت، قتل و غارت ، جھوٹ ، ناانصافی  وغیرہ جیسے حالات نے معاشرے کو گھیر لیا ہے تو اسکا زمہ دار علماء ہیں ۔ تمام مسالک کے علماء ہیں جو اس معاشرے کی روحانی پرورش میں ناکام ہو چکے ہیں ، جو معاشرے کی  کردار سازی میں ناکام ہوچکے ہیں ، آج اگر کوئی ملزم ہے، آج اگر کوئی قاتل ہے ، آج اگر کوئی جھوٹَا ہے، آج اگر کوئی چور ہے ، اج اگر کوئی عصمت فروش ہے، آج اگر کوئی رشوت خور ہے تو یہ سب علماء کے کندھوں پر آتا ہے کہ وہ  خاموش ہیں ، میرے نزدیک ان ملزموں کا بھی حساب ہونا چاہیے ، انہیں خود بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ  جس منسب پر بیٹھے ہیں اس کا حق ادا کرے اور معاشرے میں ہم آہنگی ، انسان دوستی کا فضا قائم کرے ۔

اس کا ذمہ دار وہ والدین ہیں جو اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ اس میں ماں سے زیادہ باپ کا وہ رول ہے جو کہ ہمارے معاشرے عموما پایا جاتا ہے کہ وہ گھر میں اپنے اولاد کے ساتھ ایک حکم کی طرح پیش آتا ہے ۔جسکی وجہ سے بچے اپنے والد سے اپنے مسائل کو نہ شیئر کر سکتے ہیں اور نہ ہی اسکا اظہار کر سکتے ہیں ۔ یہ معاشرے میں بڑھنے والے تمام برائیوں کا دوسرا ملزم ہے جو اپنا کردار سے غافل ہے ، باپ کا کام صرف اولاد کو روٹی کپڑا مہیا کرنا ہرگز نہیں۔ اسکا کام اولاد کی جسمانی ، روحانی و عقلانی پرورش میں ماں اور استاتذہ کا ساتھ دینا بھی ہے، پاب کا کام بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر مکمل توجہ دینا بھی ہے ۔اگر آج ہماری نئی نسل گمراہ کن راستے پر ہے تو وہ باپ کی اپنے کردار سے غفلت ہے تو یہ دوسرا ملزم ہے

اسکا زمہ دار وہ درسگاہیں ، وہ مدارس وہ اسکولز ہیں جہاں ان بچوں کی نہ روحانی پرورش ہوتی ہے اور نہ ہی جسمانی ۔ ہم ان اسکولوں کو مغرب پسند کہلاتے ہیں جہاں تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ غیر تعلیمی سرگرمیاں یعنی کھیل کود پر توجہ دی جاتی ہیں۔یہ درسگاہیں اور ایسے استاتذہ جو اپنے کردار سے غافل ہیں وہ تیسرا ملزم ہیں ۔  معاشرے میں اساتذہ کا کردار سے کوئی انکار نہیں کر سکتا  ماں باپ بچہ کو صرف جنم دیتے ہیں لیکن استاد ہی ہے جو  انہیں علم کے سمندر میں ایسی تیراکی سکھاتے ہیں کہ بچہ ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی ہمت دیتے ہیں۔ نئی نسل کی دماغ کو وسعت دیتے ہیں ان میں نئی سوچ پیدا کرتے ہیں اور منزل دکھاتے ہیں اسکے ساتھ ساتھ منزل کو حاصل کرنے کے لئے سہی راستے پر چلاتے ہیں ان میں سہی اور غلط کی پہچان کرواتے ہیں۔ جدید علوم سے انہیں آراستہ کرتے ہیں ۔ انکی روحانی و عقلانی پرورش کرتے ہیں ۔ ان کے ضمیر میں محبت، علم ، دوستی، اور سکون کی شمع جلاتے ہیں مگر جس معاشرے میں اساتذہ کی تقروری  مسلکی بنیادوں  پرہو ۔ رشوت دے کر ہو تو یہ  کیا خاک روحانی و عقلانی پرورش کرے گا ۔ہمارے معاشرے کا یہ تیسرا ملزم ہے اس سے بھی حساب لینے کی ضرورت ہے ۔

اس بیمار قوم  کو جاگانے کے لئے ، اس غلیظ معاشرے سے نکلنے کیلئے ،  ان تین ملزموں یعنی علماء۔ والدین ، اوراساتذہ کو  سداھرنا لازمی ہے ، وارنہ ہم تاریک سمندر میں ڈھوپتے جائِنگے ۔ کوئی ہمیں بچانے نہیں آئے گا،  پڑھے لکھے نوجوانوں کی ذمہ داری  ہے کہ وہ ہر ناانصافی کے خلاف بہاردی سے وعقلمندی سے آواز اٹھائیں ۔ معاشرے کی کردار سازی میں اپنا کراد ادا کرئے ، رنگ ونسل، مسلک و فکر ، علاقہ پرستی سے نکل کر انسانیت میں گل مل جائے ، حکومت کی زمہ داری ہے وہ ملزموں کو سزا دے ، نوجوانوں کے لئے صحت مندانہ تقریبات کا آغاز کرئے ، حسنین نے ہمیں  جاگایا ہے اس بیمار قوم کو جنجھوڈا ہے ۔ اس معاشرے کا عکس ہمیں دیکھایا ہے ۔ اس کی قربانی کو رائے گان مت جانے دے ، ورنہ ہم سب ملزم ہیں ، حشر میں ہم سے ان تمام بے گناہ
لوگوں کا ہماری خاموشی پر سوال ہو گا ۔۔ ۔ اٹھائے اور معاشرے کی پر امن و انسانیت پسند تشکیل میں اپنا کردار ادا کرئے   ،

PT