غلامی اور گلگت بلتستان

گلے کا طوق ہے اب بھی غلامی کی یہ زنجیریں
لگے ہیں عقل پہ تالیں جو بولے اس پہ تعزیریں

وہ پہلے کنگ تھا پھر سنگھ پھرجمہور کے نخرے
سب ہی نے ہم کو پہنائیں بڑی رنگیں زنجیریں
قیزل
یہ بات سچ ہے کہ غلام معاشرے ہمیشہ انتشار کا شکار رہتے ہیں۔اور ان  پرقابض حکمرانوں کا منشا بھی یہی ہوتا ہے ۔جب تاریخ کے اوراق کا مطالیہ کرتے ہیں تو یہ بات عیان ہوتی ہے کہ دنیا کےتمام تہذیبوں نے غلامی کو مذہبی ،اخلاقی، اور انسانی بنیادوں پر جائز قرار کر اسے معاشرے کے استحکام اور ترقی کا ضامن قرار دیا۔ بلکل اسی طرح گلگت بلتستان کو کشمیر کی آذادی سے منسوب کر کے انہیں اپنی غلام بنایا رکھا ہے جبکہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے قانون تحت اپنے ماتحت رکھا ہے۔
غلام نجی جائیداد کے زمرے میں آتے ہیں اس لیے ان کی حیثیت ملکیت کی ہوتی ہے۔ اس لیے غلاموں کے انسانی درجہ کو گھٹا کر اسے محض جائیداد کا ایک بے جان حصہ سمجھا گیا ہے جس پر اس قابض ملک کے آقا کا اختیار ہوتا ہے کہ جس طرح کا وہ چاہے اس کے ساتھ سلوک کریں اور اسے استعمال کرے یا کسی اور کے ہاتھ بھیج دے۔ اسی لیے ایک غلام کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اسکا اپنا نام بھی نہیں ہوتا ہے اسکا مالک جو چاہیے وہی نام رکھتا ہے اور وہی اسکا شناخت بن جاتا ہے۔ بلکل اسی طرح گلگت بلتستان کی حقیقی شناخت کو اسی دن ہی دفن کیا گیا جس دن یہ اسلامی جہوری سلطنت کے قبضے میں آگیا کبھی اسے ناردرن ایریاز کہا گیا تو کبھی گلگت ایجنسی اور آج کل گلگت بلتستان ۔۔۔ پھر کل کوئی اور نام ؟؟ حد تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے کچھ ذر خرید غلاموں کو اپنا حقیقی شناخت کا بھِی پتہ نہیں، وہ اسی میں ہی خوش جس نام سے ان کے  آقا انہیں بولاتے ہیں۔
اور جب یہ گمنام ، خاموش،  حسرتوں و محرمیوں کا کوئی غلام آذاد ہونا چاہتا ہے، برابری چاہتا ہے، غلاموں میں شعور پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسےذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں،تاکہ وہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بنے، اس قوم میں انتشار پیدا کرتے ہیں تاکہ وہ انکے غلام رہے۔ اس قوم کو علمی اور شعور کی دنیا سے دور رکھتے ہیں انہیں جدید سہولیات سے محروم رکھتے ہیں، بقول  پاؤلو فریرے” کہ ترقی ، تعلیم، خوشحالی، غلام قوموں کے کب حصے میں آئی ہے وہ تو صرف تربیتی ادارے بناکر اپنی ریاست کے لیے فرمانبردار ملازم بناتے ہیں۔” ۔ ۔ ۔ ۔
تو جناب حقیقت بڑی تلخ ہےاورکہانی بہت طویل ۔۔ بات بس اتنی سی ہے کہ آپ کا ضمیر کتنا باضمیر ہے۔  آیا آپ کوغلامی میں جو بھِی پکارا جائے منظور ہے۔ آپ سے جو بھی کام لیا جائے منظور ہے، آپ کو جوبھی سمجھا جائَے منظور ہے ۔۔ تو بس آپ کی قسمت چاٹتے رہیے اپنے آقا کے تلے ۔ ۔ آپ بھی خوش آپکے آقا بھی  ۔ ۔ ۔